Daastaan 1

🔰 ہرن کا توکل
👈 منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قحط پڑا اور خشکسالی ہو گئ۔ صحرا کے ہرن حضرت موسیٰ ع کے پاس آئے کہ ہم پیاس سے مر جائیں گے؛ آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگیں۔⛈️
💫حضرت موسیٰ خدا کی بارگاہ میں پہنچے اور ہرنوں کا قصہ سنایا، پروردگارکی طرف سے جواب ملا: ابھی (بارش کا) وقت نہیں آیا۔
💫 حضرت موسیٰ نے بھی واپس آ کر ہرنوں کو منفی جواب دے دیا۔
💫یہاں تک کہ ایک ہرن رضاکارانہ طور پر کوہ طور پر خدا سے بات کرنے اور دعا کرنے کے لیے چلا۔
💫 اس نے اپنے دوستوں سے کہا: اگر میں پہاڑ سے چھلانگیں لگا تے ہوئے نیچے آؤں تو سمجھ لو کہ بارش ہو جائے گی، ورنہ کوئی امید نہیں۔
👈 ہرن پہاڑ کی چوٹی پر گیا اور حضرت حق نے اسے بھی منفی جواب دیا۔
💫 جب ہرن واپس آ رہا تھا تو دور ہی سے اس نے اپنے دوستوں کی منتظر نگاہوں کو دیکھا تو اداس ہوا، وہ فورا اچھلنے لگا اور اپنے آپ سے کہنے لگا:
مجھے کم از کم اپنی توان کے مطابق اپنے دوستوں کو خوش کرنا چاہیے (جو میرے اختیار میں ہے لیکن بارش برسانا میرے اختیار میں نہیں لہذا اس بارے) خدا پر ہی میرا بھروسہ (توکل) ہے؛ جبکہ ابھی پہاڑ سے نیچے جانے تک امید باقی ہے۔
💫 جونہی ہرن، پہاڑ سے نیچے پہنچا تو اچانک بارش برسنے لگی! ⛈️
💫 حضرت موسیٰ نے پروردگار کی بارگاہ میں احتجاج کیا؛ تو جواب ملا: ہرن کو بھی تمہارے جیسا ہی جواب ملا، اس فرق کے ساتھ کہ ہرن منفی جواب کے باوجود بھروسے کے ساتھ واپس چلا اور یہ بارش ، اس کے توکل اور بھروسے کا صلہ تھا۔
🌟 آئیے ہمیشہ یاد رکھیں! کسی بھی صورت اپنے پروردگار سے مایوس نہ ہوں اور ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھیں؛ وہ یقینا ہماری مشکلات حل فرمائے گا۔
(فارسی سے اردو ترجمہ)

سامان سے لدا ہوا ایک بحری جہاز محو سفر تھا کہ تیز ہواوں کی وجہ سے وہ الٹنے لگا۔ قریب تھا کہ جہاز ڈوب جاتا، اس میں موجود تاجروں نے کہا کہ بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کچھ سامان سمندر برد کرتے ہیں ۔ تاجروں نے مشورہ کرکے طے کیا کہ سب سے زیادہ سامان جس کا ہو، وہی پھینک دیں گے۔ جہاز کا زیادہ تر لوڈ ایک ہی تاجر کا تھا۔ اس نے اعتراض کیا کہ صرف میرا سامان کیوں؟ سب کے مال میں سے تھوڑا تھوڑ پھینک دیتے ہیں ۔ 
انہوں نے زبردستی اس نئے تاجر کو سامان سمیت سمندر میں پھینک دیا۔ قدرت کی شان کہ سمندر کی موجیں اس کے ساتھ کھیلنے لگیں۔ اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا،جب ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ لہروں نے اسے ساحل پر پھینک دیا ہے۔ یہ ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ جان بچنے پر اس نے رب کا شکر ادا کیا۔ اپنی سانسیں بحال کیں. وہاں پڑی لکڑیوں کو جمع کرکے سر چھپانے کیلئے ایک جھونپڑی سی بنائی. اگلے روز اسے کچھ خرگوش بھی نظر آئے۔ ان کا شکار کرکے گزر بسر کرتا رہا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ کھانا پکا رہا تھا کہ اس کی جھونپڑی کو آگ لگ گئی۔ اس نے بہت کوشش کی، مگر آگ پر قابو نہ پا سکا۔اس نے زور سے پکارنا شروع کیا، تو نے مجھے سمندر میں پھینک دیا۔ میرا سارا سامان غرق ہوگیا۔ اب یہی جھونپڑی تھی میری کل کائنات، اسے بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ اب میں کیا کروں؟ یہ شکوا کرکے وہ خالی پیٹ سو گیا۔ صبح جاگا تو عجیب منظر تھا۔ دیکھا کہ ایک کشتی ساحل پر لگی ہے اور ملاح اسے لینے آئے ہیں۔  اس نے ملاحوں سے پوچھا کہ تمہیں میرے بارے میں کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے جو جواب دیا، اس سے تاجر حیران رہ گیا۔ ملاحوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ جزیرہ غیر آباد ہے، لیکن دور سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا تو سمجھے شاید کوئی یہاں پھنسا ہوا ہے، جسے بچانا چاہئے۔ اس لئے ہم تمہارے پاس آئے۔ پھر تاجر نے اپنے پورا قصہ سنایا تو ملاحوں نے یہ کہہ کر اسے مزید حیران کر دیا کہ جس جہاز سے تمہیں سمندر میں پھینکا گیا، وہ آگے جا کر غرق ہوگیا۔ یہ سن کر تاجر سجدے میں گر گیا، رب کا شکر ادا کرنے لگا اور کہا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے بچانے کیلئے تاجروں کے ہاتھوں سمندر میں پھنکوایا۔ اپنے بندوں کے بارے میں وہی زیادہ جاننے والا ہے۔
 حالات جتنے بھی سخت ہو جائیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ رکھیئے کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے جو تمہارے حق میں بہتر نہ ہو وہ تم کو اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ وہ واحد ذات ہے جو تم کو سترماوں سے ذیادہ پیار کرتا ہیں لیکن اس کے لیے یقین پختہ ہونا چاہیے جب تمہارا یقین پختہ ہوجاتا ہے تو وہ مالک تمہیں کبھی کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بےشک ۔۔۔🌠

◾️ایک غلط فہمی کا ازالہ
ایک فرمان امام علی علیہ السلام کی نسبت سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس سے مفہوم غلط لیا جاتا ہے
سوشل میڈیا پر پیش کیا جانے والا فرمان یہ ہے کہ “جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔”
اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ آپ جس پر احسان کرتے ہو وہی پھر آپکو نقصان دیتا ہے لہذا اسکے شر سے بچو کچھ احباب سے میں نے بھی سنا آج نہج البلاغہ میں دیکھا تو معاملہ ہماری فہم کے برعکس ہے سوشل میڈیا پر قول و مفہوم دونوں بدل دیئے۔
* مولا علی ع فرماتے ہیں: *
عَاتِبْ اَخَاكَ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ ارْدُدْ شَرَّهٗ بِالْاِنْعَامِ عَلَیْهِ.
اپنے بھائی کو شرمندۂ احسان بنا کر سرزنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔(نہج البلاغہ حکمت نمبر  158)
امام علی علیہ السلام کا فرمان یہ کہہ رہا ہے کہ دوسروں پر احسان کرو تا کہ انکے شر سے بچ سکو۔
اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے، الہی آمین۔

Speech is better than Silence
https://ub4yourself.blogspot.com/2022/05/speech-is-better-than-silence.html

👹 شیطان کا کام اور انسان 👹*
گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا شیطان آیا اور اسے کھول دیا۔ گدھا کھیتوں کی طرف بھاگا اور کھڑی فصل کو تباہ کرنے لگا۔
جب کسان کی بیوی نے یہ دیکھا تو اس نے غصے میں گدھے کو مار ڈالا۔
گدھے کی لاش دیکھ کر گدھے کا مالک بہت غصے میں آگیا اور کسان کی بیوی کو گولی مار دی۔
کسان اپنی بیوی کی موت سے اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے گدھے کے مالک کو گولی مار دی۔
جب گدھے کے مالک کی بیوی نے اپنے شوہر کی موت کی خبر سنی تو غصے میں اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ کسان کا گھر جلا دیں۔
بیٹے شام کو گئے اور ماں کے حکم کو پورا کرتے ہوئے کسان کے گھر کو آگ لگا دی یہ سوچ کر کہ کسان بھی گھر میں جل کر مر جائے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔
کسان واپس آیا اور گدھے کے مالک کے تینوں بیٹوں اور بیوی کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو غلطیوں کا احساس ہوا تب کسان شیطان کو کوسنے لگا۔
شیطان نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا صرف گدھے کی رسی کھولی تھی لیکن سب نے رد عمل ظاہر کیا، رد عمل کے جواب میں اور زیادہ اور شدید رد عمل ظاہر کیا اور اپنے اندر کی خباثت کو باہر آنے دیا۔
🔘 لہذا جواب دینے، رد عمل ظاہر کرنے اور کسی سے بدلہ لینے سے پہلے رک جائیں اور ایک لمحے کے لیے سوچیں۔۔۔
کبھی کبھی شیطان ہمارے درمیان صرف گدھا چھوڑ دیتا ہے اور باقی کام ہم خود کرتے  ہیں!!
روزانہ ٹی وی چینلز گدھے چھوڑتے ہیں،
کوئی گروپ میں ایک گدھا چھوڑ دیتا ہے،
کوئی فیس بک پر گدھا چھوڑتا دیتا ہے،
آپ اور میں دوستوں کے گروپ میں خاندان اور پارٹی سیاست یا نظریے کے دائرے میں لڑتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں!
ٹوٹنا آسان ہے، جڑے رہنا بہت مشکل ہے ...
لڑنا آسان ہے، درگزر کرنا بہت مشکل ہے ...

تین بھائی ایک آدمی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے کر آئے اور کہنے لگے کہ اس نے ہمارے باپ کا قتل کیا ہے
امام علی علیہ السلام نے اس آدمی سے دریافت کیا کہ تو نےایسا کیوں کیا ہے
وہ آدمی عرض کرنے لگا: حضور میں ایک چرواہا ہوں ، بھیڑ بکری اور اونٹ چراتا ہوں.... میرے ایک اونٹ نے ان لوگوں کے والد کے باغ سےایک درخت کھانا شروع کردیا تو ان کا والد اٹھا اور میرے اونٹ کو ایک پتھر دے مارا ، پتھر اتنا تیزی سے مارا تھا کہ اونٹ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا. جب میں نے یہ حالت دیکھی تو مجھے بھی بہت غصہ آیا جس کے سبب میں نے وہی پتھر اس آدمی کے سر پر دے مارا اور بدقسمتی سے وہ آدمی بھی موقع پر ہی مر گیا
امام علیہ السلام فرمانے لگے: تو اس صورت میں مجھے تجھ پر حد جاری کرنی ہو گی. وہ آدمی کہنے لگا : مولا مجھے تین دن کی مہلت دے دیں
میرا باپ مرچکا ہے اور وراثت میں میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے لئے خزانہ چھوڑ گیا ہے. اگر میں مار دیا جاتا ہوں تو وہ خزانہ بھی تباہ ہو جائے گا اور میرا بھائی بھی
اميرالمومنین (علیہ السلام) فرمانے لگے: تیری ضمانت کون دے گا
اس آدمی نے لوگوں کی طرف نظر دوڑائی تو اس کی نظر ابوذر ؓ پر پڑی.کہنے لگا یہ آدمی میرا ضامن بنے گا
اميرالمومنين (علیہ السلام) نے فرمایا: اے ابوذر کیا تم اس شخص کی ضمانت قبول کرتے ھو
ابوذرؓنے عرض کیا جی ہاں
اميرالمومنين علیہ السلام نے فرمایا: تم اسے جانتے تک نہیں اور اگر یہ بھاگ جائے تو حد تم پر جاری ہوگی
ابوذر ؓ نے عرض کیا : میں اس کی ضمانت لیتا ہوں يا اميرالمومنين.
وہ آدمی چلا گیا. پہلا ، دوسرا ، تیسرا...تین دن گزر گئے ، سب لوگوں کو ابوذر ؓ کی فکر ہونے لگی کہ کہیں حد ان پر جاری نہ کردی جائے...آخر کار تیسرے دن مغرب کے وقت وہ آدمی نہایت تھکا ماندہ واپس آن *پہنچا ،اميرالمومنين علی علیہ السلام کے پاس پہنچ کرعرض کرنے لگا: میں نے خزانہ اپنے بھائی کو دے دیا اور اب آپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہوں, مجھ پر حد جاری کر دیجئے . امام علی علیہ السلام فرمانے لگے: کیا چیز سبب بنی جو تم واپس لوٹ آئے، جبکہ تم آزاد تھے اور بھاگ بھی سکتے تھے
وہ آدمی کہنے لگا: مجھے ڈر تھا کہ کہیں "وفائے عهد" لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہوجائے
اميرالمومنين علیہ السلام نے ابوذر ؓ سے سوال کیا : تم نے کیسے اس کی ضمانت دے دی؟
ابوذر ؓ کہنے لگے: مجھے خوف ہوا کہیں"خیر و خوبی" لوگوں میں سے نہ مٹ جائے
مقتول آدمی کے بیٹے اس واقعہ سے اتنا متائثر ہوئے کہ کہنے لگے : ہم بھی اپنے باپ کا *قصاص اس شخص سے نہیں لیں گے...اميرالمومنين علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا: آپ لوگ کیوں؟
کہنے لگے : ہمیں ڈر ہے کہ کہیں "بخشش و درگذشت" لوگوں کے درمیان سے نہ چلی جائے.
اور میں بھی یہ پیغام آپ *حضرات کو بھیج رہا ہوں تاکہ کہیں "نیکی کی طرف دعوت" لوگوں کے درمیان سے نہ مٹ جائے.
اب آپ کی باری ہے کہ اس داستان کو پڑھنے کے بعد دوسروں تک پہنچائیں تاکہ *فضایل مولا کے نشر و پخش کا سلسلہ" لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہو جائے🌺

🔰ایک مرتبہ ہنسا، ایک مرتبہ رویا اور ایک مرتبہ ڈرا.
✨ اللہ تعالی نے حضرت عزرائیل سے پوچھا؟
💠 کیا کسی کی جان لیتے وقت کبھی گریہ کیا ہے؟
⚪️ ﻋﺰﺭﺍﺋﯿﻞ (ع) نےجواب دیا:
ایک مرتبہ ہنسا ہوں
ایک مرتبہ گریہ کیا ہے
اور ایک مرتبہ ڈرا ہوں
😊میں اس وقت ہنسا جب مجھے حکم ملا فلاں مرد کی روح قبض کرو جو اس وقت جوتے مرمت کروا رہا تھا ، اور دکان والے کو کہہ رہا تھا کہ میرے جوتے ایسے بناؤ کہ ایک سال تک کام کرتے رہیں، اس کے حال پر ہنسا😊
اور میں نے اس کی جان لے لی .
😥 میں نے گریہ اس وقت تک کیا کہ مجھے دستور دیا گیا فلاں عورت کی روح قبض کروں جبکہ وہ بیاباں میں گرم ہوا اور بے آب و گیاہ کے میدان میں تنھا تھی اور بچہ جننے کی حالت میں تھی. اس کے انتظار میں رہا تاکہ بچے کو جنم دے سکے . پھر اس کے بعد میں نے اس کا روح قبض کیا.میرا دل اس معصوم کے لئے بہت بے تاب ہوا جو سخت گرمی اور بیاباں میں جل رہا تھا .اور میں نے گریہ کیا😥
😨 میں اس وقت ڈرا کہ جب مجھے دیا گیا کہ ایک فقہی کی جان لو جبکہ اس کے کمرے سے بہت نور آرہا تھا . اور جتنا میں اس کے بستر کے قریب تر ہو رہا تھا نور زیادہ ہو رہا تھا . اور جب میں نے اس کی روح قبض کر لی تو اس کے چہرے کی چمک سے میں خوف زدہ ہوگیا تھا 😨
✨ اسی وقت اللہ تعالی نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا:
⭐️ کیا تم جانتے ہو وہ نورانی عالم دین کون تھے؟
💠 یہ وہی بچہ تھا جو تم نے بے یار و مدد گار بیابان میں گرم ہوا میں اس کی ماں کی روح قبض کی تھی . اس بچہ کی حفاظت میرے عہدہ پر تھی.
✅ کبھی یہ گمان نہ کرو کہ میرے ہونے کے باوجود ، اس دنیا میں کوئی بے یار و مددگار رہے.
📚: داستان های کوتاه پند آموز

Comments

Popular posts from this blog

Dignity of Human Being

Intro of Joel Osteen Complied by me

مشکلات سے نجات کی دعا Dua To Ease Hardships / Distress - O (Allah) who opens the closed doors