Two Interesting Stories About Fulfillment of the Covenant, Goodness, Forgiveness and Failure (English and Urdu)

Three brothers brought a man to Imam Ali (AS) and accused him of killing their father. Imam Ali AS asked the man, "Why did you do that?" The man replied, "O Imam, I work as a shepherd and my camel started eating a tree from their father's garden. Their father got angry and hit my camel with a stone so hard that it died instantly. When I saw this, I got very angry, and in my anger, I threw the same stone at the man's head, and unfortunately, he also died instantly."
Imam Ali AS said, "In that case, I have to apply the law on you." The man said, "Maula, give me a three-day respite." He continued, "My father died, and he left a treasure for me and my brother. If I am executed, the treasure will be destroyed, and my brother will also suffer."
Imam Ali AS asked, "Who will guarantee you?" The man looked at the people, and his gaze fell on Abu Dharr. He said, "This man will be my guarantor."
Imam Ali said, "Abu Dharr! do you accept his guarantee?" Abu Dharr replied, "Yes."
Imam Ali said, "You don't even know this person. If he flees, you will be held accountable."
Abu Dharr said, "Yes, I accept his guarantee."
The man left. First day, second day, third day ... Three days passed, and people started worrying that the punishment might be imposed on him. Finally, on the third day at sunset, the man returned to Imam Ali AS when he was very exhausted and said, "I have given the treasure to my brother, and now I submit myself to your command. Impose the punishment on me."
Imam Ali AS asked, "What caused you to return when you was free and could have escaped?"
The man said, "I was afraid that the concept of 'loyalty' would be eradicated among the people."
Imam Ali AS asked Abu Dharr, "How did you guarantee him?"
Abu Dharr replied, "I was afraid that the concept of 'goodness and kindness' would be erased among the people."
The sons of the murdered man were deeply affected by this incident and said, "We will not seek revenge from this man for the killing of our father..."
Imam Ali asked them, "Why?"
They replied, "We are afraid that the concept of 'forgiveness and mercy' will disappear among the people. 
And I am also sending this message to you, so that the concept of 'inviting towards goodness' does not vanish among the people. Now it's your turn to spread this story to others so that the chain of spreading the virtues of Maula does not end among the people."
تین بھائی ایک آدمی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے کر آئے اور کہنے لگے کہ اس نے ہمارے
 باپ کا قتل کیا ہے
امام علی علیہ السلام نے اس آدمی سے دریافت کیا کہ تو نےایسا کیوں کیا ہے
وہ آدمی عرض کرنے لگا: حضور میں ایک چرواہا ہوں ، بھیڑ بکری اور اونٹ چراتا ہوں .... میرے ایک اونٹ نے ان لوگوں کے والد کے باغ سےایک درخت کھانا شروع کردیا تو ان کا والد اٹھا اور میرے اونٹ کو ایک پتھر دے مارا ، پتھر اتنا تیزی سے مارا تھا کہ اونٹ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا. جب میں نے یہ حالت دیکھی تو مجھے بھی بہت غصہ آیا جس کے سبب میں نے وہی پتھر اس آدمی کے سر پر دے مارا اور بدقسمتی سے وہ آدمی بھی موقع پر ہی مر گیا
امام علیہ السلام فرمانے لگے: تو اس صورت میں مجھے تجھ پر حد جاری کرنی ہو گی. وہ آدمی کہنے لگا : مولا مجھے تین دن کی مہلت دے دیں
میرا باپ مرچکا ہے اور وراثت میں میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے لئے خزانہ چھوڑ گیا ہے. اگر میں مار دیا جاتا ہوں تو وہ خزانہ بھی تباہ ہو جائے گا اور میرا بھائی بھی
اميرالمومنین (علیہ السلام) فرمانے لگے: تیری ضمانت کون دے گا
اس آدمی نے لوگوں کی طرف نظر دوڑائی تو اس کی نظر ابوذر ؓ پر پڑی.کہنے لگا یہ آدمی میرا ضامن بنے گا
اميرالمومنين (علیہ السلام) نے فرمایا: اے ابوذر کیا تم اس شخص کی ضمانت قبول کرتے ھو
ابوذرؓنے عرض کیا جی ہاں
اميرالمومنين علیہ السلام نے فرمایا: تم اسے جانتے تک نہیں اور اگر یہ بھاگ جائے تو حد تم پر جاری ہوگی
ابوذر ؓ نے عرض کیا : میں اس کی ضمانت لیتا ہوں يا اميرالمومنين
وہ آدمی چلا گیا. پہلا ، دوسرا ، تیسرا ... تین دن گزر گئے ، سب لوگوں کو ابوذر ؓ کی فکر ہونے لگی کہ کہیں حد ان پر جاری نہ کردی جائے ... آخر کار تیسرے دن مغرب کے وقت وہ آدمی نہایت تھکا ماندہ واپس آن پہنچا اميرالمومنين علی علیہ السلام کے پاس پہنچ کرعرض کرنے لگا: میں نے خزانہ اپنے بھائی کو دے دیا اور اب آپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہوں, مجھ پر حد جاری کر دیجئے. امام علی علیہ السلام فرمانے لگے: کیا چیز سبب بنی جو تم واپس لوٹ آئے، جبکہ تم آزاد تھے اور بھاگ بھی سکتے تھے
وہ آدمی کہنے لگا: مجھے ڈر تھا کہ کہیں "وفائے عهد" لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہوجائے
اميرالمومنين علیہ السلام نے ابوذر ؓ سے سوال کیا : تم نے کیسے اس کی ضمانت دے دی؟
ابوذر ؓ کہنے لگے: مجھے خوف ہوا کہیں"خیر و خوبی" لوگوں میں سے نہ مٹ جائے
مقتول آدمی کے بیٹے اس واقعہ سے اتنا متائثر ہوئے کہ کہنے لگے: ہم بھی اپنے باپ کا *قصاص اس شخص سے نہیں لیں گے ... اميرالمومنين علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا: آپ لوگ کیوں؟
کہنے لگے : ہمیں ڈر ہے کہ کہیں "بخشش و درگذشت" لوگوں کے درمیان سے نہ چلی جائے
اور میں بھی یہ پیغام آپ حضرات کو بھیج رہا ہوں تاکہ کہیں "نیکی کی طرف دعوت" لوگوں کے درمیان سے نہ مٹ جائے
اب آپ کی باری ہے کہ اس داستان کو پڑھنے کے بعد دوسروں تک پہنچائیں تاکہ *فضایل مولا کے نشر و پخش کا سلسلہ لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہو جائے

ناکامی ،کامیابی کی سیڑھی ھے
والاس جانسن نامی ایک امریکی نوجوان نےا پنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گزار دیے۔ اس کی جوانی کی بے مہار طاقت پرمشقت اور سخت ترین کام کرکے کچھ زیادہ ہی تسکین پائی تھی اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اس کی زندگی کے چالیس سال گزر گئے۔
یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے والاس جانسن ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا۔ "میں تمہیں ابھی اور اسی وقت کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا۔" والاس کے لیے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی وہ وہاں سے نکل کر خالی الذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا۔
یہ چیز اسے سب سے زیادہ پریشان کررہی تھی کہ وہ کس منہ سے جاکر اپنی بیوی کو بتائے گا کہ اس کے گھر کے گزارے کے لیے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اسے گھر لوٹنا ہی پڑا۔ والاس کی بیوی نے والاس کے برعکس نوکری چھوٹنے کی خبر نہایت تحمل سے سنی اور والاس جانسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا۔
"کیوں نہ ہم اپنے گھر کو رہن رکھ کر قرضہ اٹھائیں اور تعمیرات کا کام شروع کردیں۔
اور اس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرضہ اٹھایا اور اس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس پہلے تعمیراتی کام میں اس کی اپنی محنت اور مشقت زیادہ شامل تھی۔ یہ دو گھر اچھے پیسوں میں فروخت ہوئے۔ تو اس کا حوصلہ اور برھ گیا۔ اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اس کی پہچان بن گئے۔ اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی والاس ایک مشہور کروڑ پتی والاس جانسن بن چکا تھا۔ جس نے دنیا کے مشہور ترین ہوٹلوں کے سلسلے ہالی ڈے ان کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور ہالی ڈے ان ہوٹل دنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔
یہ شخص اپنی ڈائری میں یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس آرا ورکشاپ کا مالک جس نے مجھے کام سے نکالا تھا کہاں رہتا ہے تو میں جاکر اس کا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں، کیونکہ اس نے میرے لیے ایسی صورت حال پیدا کرکے بظاہر تو ایسی دردناک کیفیت پیدا کردی تھی جس نے میرے ہوش و حواس ہی چھین لیے تھے مگر آج میں نے یہ جانا کہ اگر خدا نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو اس کے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرےخاندان کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہواا۔
جب کبھی بھی ناکامی کا سامنا ہوجائے تو اسے اپنا اختتام نہ سمجھ لو۔ بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچو اور ایک نئی ابتدا کرلو۔
اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے۔
"مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو، اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"(سورۃ البقرۃ 
آیت 216)۔

Failure is a ladder to success: A young American named Wallace Johnson spent the most beautiful days of his life in a workshop cutting wood. He found solace (relief) in the extraordinary power of his youthful perseverance and hard work. He spent forty years of his life doing the toughest tasks, and the wood chips were his consolation. While he was busy cutting wood, the owner of the workshop suddenly called him and said, "I am firing you right now, and don't come here from tomorrow." This news was no less than a calamity for Wallace, who walked out of there with an empty mind and distressed state, stumbling on the streets.
The thing that troubled him the most was how he would go and tell his wife that the job that supported their living had been taken away from him. However, his wife, on the contrary, received the news of losing her job with great composure and said, "Why don't we mortgage our house and start the construction work ourselves? We will make wooden products and sell them ourselves." These words gave birth to a new thought in Wallace's mind. He started making small wooden products, and both husband and wife went door to door to sell them.
Gradually, people started liking their products, and they started getting orders in abundance. They not only paid off their debts but also managed to buy their own small workshop. In this way, Wallace and his wife founded a small company called "Black & Decker," which today is known as one of the most famous companies in the world.

Comments

Popular posts from this blog

Dignity of Human Being

Intro of Joel Osteen Complied by me

مشکلات سے نجات کی دعا Dua To Ease Hardships / Distress - O (Allah) who opens the closed doors